Female: 0305-2611777

ناظرین آج کے ا س مو ضو ع میں ہم واقعہ معراج کے حوالے سے بات کریں گے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم قرب خاص میں گئے۔ اور ان منازل کو طے کر گئے۔جہاں تک نہ کوئی گیا تھا۔اور نہ کوئی پہنچ سکتا تھا۔ تو اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت کچھ دیا۔ 70 ہزار اصرار تھے۔ 70 ہزار رموز تھے۔ 70 ہزار حکایات تھی۔ محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جھولی میں بہت کچھ ڈالا اور ڈال کر یہ فرمایا: اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ تو میں نے خود دیا ہے۔ اب تو اپنی چاہت بھی بتا کہ تیری چاہت کیا ہے۔ یہ مہمان نوازی کے تقاضے ہوتے ہیں۔ کہ سب کچھ پیش کرنے کے بعد بھی میزبان کہتا ہے کہ کوئی اور چیز آپ کی کوئی پسند تو یہ میزبانی کے تقاضے ہوتے ہیں۔ سب کچھ جھولی میں ڈال دینے کے باوجود پوچھا پیارے بتائیے آپ کو کیا دیا جائے۔

ما ہ رجب کی فضیلت


اب دیکھیے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا مانگا!کسی شخص کو اگر دیکھنا ہو کہ وہ کہاں کھڑا ہے تو اسے اختیار دے دیجئے پھر پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اور کہاں کھڑا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی شخص سے کہیں کہ مانگو کیا مانگتے ہو تو وہ کہے مجھے پانی دو۔ تو آپ سمجھ جائیں کہ پیاسا ہے۔ وہ کہے کہ کھانا دو۔تو آپ سمجھیں گے کہ بھوکا ہے۔ اگر وہ کہے کہ میرے نام کے نعرے لگاؤ تو آپ سمجھیں گے کہ شہرت کا بھوکا ہے۔ وہ کہے میں اتنی اچھی تقریر کر رہا ہوں اٹھو مجھ پر پیسے لٹاؤ۔ تو آپ کہیں گے کہ یہ بیچارا تو غربت کا مارا ہے۔ اس کے اندر کی بھوک ابھی گئی نہیں۔ تو کسی کے ظرف کا پتہ لگانا ہو تو اس کو اختیار دے دو کہ مانگ کیا مانگتا ہے۔ تو اگر مانگنے والا کوئی کمال چیز مانگ لے تو کسی کے سوال سے اس کا ظرف کھلتا ہے۔ کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اختیار دیا کہ مانگیے کیا مانگتے ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا مانگا! یقینا کوئی بھی انسان محبوب کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظرف تک نہیں پہنچ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مانگا! تو کیا خوب مانگا۔کہ اے اللہ ساری زندگی میں کہتا رہا کہ تو میرا رب ہے۔ یہ میں نے غاروں میں بھی کہا۔یہ میں نے پہاڑوں پہ بھی کہا۔طائف کے بازاروں میں بھی کہا۔مکے کی گلیوں میں بھی کہا۔برستے پتھروں کے سائے میں بھی کہا۔ ساری زندگی میں نے کہا کہ تو میرا رب ہے۔ آج تو بھی تو کہہ دے کہ تو میرا بندہ ہے۔مجھے عبد کہہ کر پکار دے۔ امام رازی بھی لکھتے ہیں۔ اور ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسندیدہ فرمودہ ہے۔ تو پھر اللہ نے جب بھی واقعہ معراج کی ایک آیت نازل کی تو لفظ عبد سے بات شروع کی۔ تو یہ محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چاہت پر ہے۔ اور پھر عبدیت کا بندے کی طرف سے جو اظہار ہوگا اس کے لیے 50 نمازوں کا تحفہ دے دیا۔کہ میرے بندے مجھے رب کہہ کر پکارتا رہے اور میں تجھے لبیک یا ابدی کہ ہ کر پکارتا رہوں۔اور پھر وہ 50 نمازیں پانچ نمازوں کی صورت میں باقی رہی۔تو ناظرین اندازہ کیجئے کہ یہ مہینہ کتنی فضیلتوں والا ہوگا۔تو اس مہینے کی انہی ساعتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیے اور جتنا ہو سکے ذکر الہی سے اپنی زبان کو تر رکھنے کے لیے ا سم الہی سبحان اللہ کا ورد کیجئے۔ اور اپنی زندگی کے کسی بھی الجھے ہوئے روحانی مسئلے کا فوری روحانی حل وظائف دعا اور قرانی تعویذات کی صورت میں حاصل کرنے کے لیے نیچے دیے گئے فون نمبرز پر رابطہ کیجئے۔

Contact Us :
Female: 0305-2611777
Male: 0300-9157861